COVID-19 وبائی امراض کے درمیان چین کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں جنوری سے اپریل تک کمی ہوتی رہی، چین امریکہ تجارت کی کل مالیت 12.8 فیصد کم ہو کر 958.46 بلین یوآن ($135.07 بلین) رہ گئی۔جمعرات کو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ سے چین کی درآمدات میں 3 فیصد جبکہ برآمدات میں 15.9 فیصد کمی واقع ہوئی۔
جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز (GAC) کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے چار مہینوں میں چین کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس 446.1 بلین یوآن تھا، جو کہ 21.9 فیصد کی کمی ہے۔
اگرچہ دو طرفہ تجارت میں منفی نمو COVID-19 کے ناگزیر اثرات کی عکاسی کرتی ہے، لیکن یہ بات اب بھی قابل توجہ ہے کہ پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں تھوڑا سا اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ چین وبائی امراض کے درمیان بھی پہلے مرحلے کے تجارتی معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے، وانگ جون، Zhongyuan کے چیف ماہر اقتصادیات بینک نے جمعرات کو گلوبل ٹائمز کو بتایا۔
پہلی سہ ماہی میں، چین-امریکہ دوطرفہ تجارت 18.3 فیصد سال بہ سال گر کر 668 بلین یوآن رہ گئی۔امریکہ سے چین کی درآمدات میں 1.3 فیصد جبکہ برآمدات میں 23.6 فیصد کمی واقع ہوئی۔
دو طرفہ تجارت میں کمی اس حقیقت کی وجہ سے بھی ہے کہ عالمی وبا کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ چین کے لیے امریکی تجارتی پالیسیاں سخت تر ہوتی جا رہی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مہلک وائرس کی ابتداء پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت امریکی حکام کے چین پر حالیہ بے بنیاد حملے لامحالہ پہلے مرحلے کے معاہدے میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کریں گے۔
ماہرین نے امریکہ پر بھی زور دیا کہ وہ چین کے بارے میں بہتان تراشی بند کرے اور تجارتی تنازعات کو جلد از جلد ختم کرے تاکہ کاروبار اور تجارتی تبادلے پر توجہ دی جا سکے کیونکہ خاص طور پر امریکہ کو اقتصادی کساد بازاری کے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔
وانگ نے نوٹ کیا کہ امریکہ کو چین کی برآمدات میں مستقبل میں کمی جاری رہ سکتی ہے، کیونکہ امریکہ میں معاشی کساد بازاری ملک میں درآمدی طلب کو نصف کر سکتی ہے۔
پوسٹ ٹائم: مئی 08-2020